کیا روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے؟
س… روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے یا نہیں؟ کیا وہ جن جگہوں کو پہچانتی ہے، مثلاً گھر، وہاں جاسکتی ہے؟
ج… کفار و فجار کی روحیں تو “سجین” کی جیل میں مقید ہوتی ہیں، ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور نیک ارواح کے بارے میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا۔ اس لئے اس سلسلہ میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، اصل بات یہ ہے کہ روح اپنے تصرفات کے لئے جسم کی محتاج ہے، جس طرح جسم روح کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا، اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر تصرفات نہیں کرسکتی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ موت کے بعد اس ناسوتی جسم کے تصرفات ختم کردئیے جاتے ہیں، اس لئے مرنے کے بعد روح اگر کوئی تصرف کرسکتی ہے تو مثالی جسم سے کرسکتی ہے، چنانچہ احادیث میں انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور بعض صالحین کے مثالی جسم دئیے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جن ارواح کو مرنے کے بعد مثالی جسم عطا کیا جاتا ہے وہ اگر باذن اللہ کہیں آتی جاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً: لیلة المعراج میں انبیاء کرام علیہم السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے لئے بیت المقدس میں جمع ہونا، شہداء کا جنت میں کھانا پینا اور سیر کرنا، اس کے علاوہ صالحین کے بہت سے واقعات اس قسم کے موجود ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اس کے لئے کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب احد سے واپس ہوئے تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی قبر پر ٹھہرے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہو۔ (پھر صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا) پس ان کی زیارت کرو، اور ان کو سلام کہو، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! نہیں سلام کہے گا ان کو کوئی شخص مگر یہ ضرور جواب دیں گے اس کو قیامت تک۔ (حاکم، وصححہ بیہقی، طبرانی)
مسند احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: “میں اپنے گھر میں (یعنی حجرہٴ شریفہ روضہٴ مطہرہ میں) داخل ہوتی تو پردہ کے کپڑے اتار دیتی تھی، میں کہا کرتی تھی کہ یہ تو میرے شوہر (صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرے والد ماجد ہیں، لیکن جب سے حضرت عمر دفن ہوئے اللہ کی قسم! میں کپڑے لپیٹے بغیر کبھی داخل نہیں ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کی بنا پر۔” (مشکوٰة باب زیارة القبور ص:۱۵۴)