برقعہ پتھر کے دور کی نشانی ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون کی یاد آتی ھے ۔ ملالہ کی یادگار ڈائری
ملالہ
یوسفزئی کو اس وقت بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے گل مکئی کے
قلمی نام سے برطانوی ریڈیو بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر جنگ بیتی کو اپنے
انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں ملالہ یوسفزئی کو اسی ویب پوسٹس
پرنہ صرف شہرت ملی بلکہ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ملالہ نے ڈائری کے ان
صفحات پر اس خوف و کرب کا اظہار کیا ہے جس کے تحت سوات وادی میں رات کے
سناٹے میں گونجتی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اسے مضطرب کرتی تھی ۔ دوہزار نو میں
ملالہ یوسفزئی کی ڈائری سے چند اقتباس۔
جمعرات پندرہ جنوری: گولیوں اور توپوں کی گھن گھرج
میں رات تین مرتبہ جاگی کیونکہ ساری رات گولیوں اور گولہ باری کی آوازیں گونجتی رہیں۔ چونکہ اسکول نہیں جانا تھا اس لئے میں صبح دس بجے بیدار ہوئی۔بعد ازاں میری سہیلیاں گھر آگئیں اور ہم نے ہوم ورک پر بات کی۔طالبان سوات میں اسکولوں کو مسلسل نشانہ بنارہے تھے۔آج میں نے بی بی سی پر شائع ہونے والی ڈائری پڑھی جو ایک اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی۔میری امی نے میرے قلمی نام گُل مکئی کوپسند کیا اور میرے والد سے کہا کہ اس کا نام بدل کر گُل مکئی کیوں نہیں کردیتے ۔ہاں، مجھے بھی یہ نام پسند آیا کیونکہ میرے اصل نام کا مطلب ہے غمزدہ۔واضح رہے کہ اس پوسٹ میں بھی ملالہ نے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کیا تھا۔
بدھ چودہ جنوری: شاید میں دوبارہ اسکول نہ جاسکوں
آج اسکول جاتے ہوئے میرا موڈ بہت خراب تھا کیونکہ سردیوں کی چھٹیوں کا اعلان تو ہوگیا تھا لیکن اسکول پرنسپل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ دوبارہ اسکول کب کھلیں گے۔ پہلی دفعہ ہی ایسا ہوا تھا۔پرنسپل نے اس کی وجہ نہیں بتائی لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے پیچھے طالبان ہیں جنہوں نے پندرہ جنوری سے بچیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔میری بعض دوستوں نے بتایا کہ ان کے والدین دوسرے علاقوں یا شہروں میں جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں تاکہ وہ بچیاں وہاں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔چونکہ آج اسکول کا آخری دن تھا اس لئے ہم سب کافی دیر تک کھیلتے رہے۔گھر جاتے ہوئے میں نے اسکول کی دیواروں کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ شاید اب میں دوبارہ یہاں نہیں آسکوں گی۔میں نے آج اسکول میں سہیلیوں کو اپنے بونیر کے دورے کی کہانی سنائی تو انہوں نے کہا کہ وہ یہ داستان سن سن کر اکتا چکی ہیں۔اسکول میں بچے اس افواہ پر بھی بات کررہے تھے کہ ایف ایم پر تقریر کرنے والے مولانا فوت ہوچکے ہیں ہم سب کی دعا تھی کہ وہ واقعی مر چکے ہوں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کو اسکول نہیں جانا چاہئے۔بعض نے کہا کہ مولانا چھٹیوں پر چلے گئے ہیں کیونکہ وہ ہر رات کو پابندی سے ایف ایم ریڈیو پر تقریر کرتے تھے اور انہوں نے گزشتہ رات تقریر نہیں کی تھی۔آج جمعہ تھا اور ٹیوشن کا نہیں پڑھنا تھا اس لئے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس میں لاہور بم دھماکے کی خبر نشر ہورہی تھی۔میں نے خود سے سوال کیا کہ آخر پاکستان میں ہی یہ بم دھماکے کیوں ہورہے ہیں۔
سات جنوری ، نہ خوف نہ فائرنگ
میں محرم کی چھٹیوں پر بونیر آگئی ہوں جو مجھے بلند پہاڑ اور سرسبز کھیتوں کی وجہ سے بہت اچھا لگتا ہے۔خوبصورت تو میرا سوات بھی ہے لیکن وہاں امن نہیں ہے۔ لیکن بونیر میں امن اور سکون ہے۔ نہ فائرنگ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خوف۔آج ہم پیر بابا کے مزار پر بھی گئے جہاں سے میری والدہ نے چوڑیاں اور جھمکے خریدے۔
پیر پانچ جنوری : رنگین کپڑ ے مت پہنو
میں اسکول روانہ ہونے کیلئے یونیفارم پہن ہی رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پرنسپل نے ہمیں یونیفارم پہننے سے منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر کے سادہ کپڑوں میں اسکول آیا جائے اور برقعہ پہن کر۔ مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون کی یاد آتی ھے
جمعرات پندرہ جنوری: گولیوں اور توپوں کی گھن گھرج
میں رات تین مرتبہ جاگی کیونکہ ساری رات گولیوں اور گولہ باری کی آوازیں گونجتی رہیں۔ چونکہ اسکول نہیں جانا تھا اس لئے میں صبح دس بجے بیدار ہوئی۔بعد ازاں میری سہیلیاں گھر آگئیں اور ہم نے ہوم ورک پر بات کی۔طالبان سوات میں اسکولوں کو مسلسل نشانہ بنارہے تھے۔آج میں نے بی بی سی پر شائع ہونے والی ڈائری پڑھی جو ایک اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی۔میری امی نے میرے قلمی نام گُل مکئی کوپسند کیا اور میرے والد سے کہا کہ اس کا نام بدل کر گُل مکئی کیوں نہیں کردیتے ۔ہاں، مجھے بھی یہ نام پسند آیا کیونکہ میرے اصل نام کا مطلب ہے غمزدہ۔واضح رہے کہ اس پوسٹ میں بھی ملالہ نے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کیا تھا۔
بدھ چودہ جنوری: شاید میں دوبارہ اسکول نہ جاسکوں
آج اسکول جاتے ہوئے میرا موڈ بہت خراب تھا کیونکہ سردیوں کی چھٹیوں کا اعلان تو ہوگیا تھا لیکن اسکول پرنسپل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ دوبارہ اسکول کب کھلیں گے۔ پہلی دفعہ ہی ایسا ہوا تھا۔پرنسپل نے اس کی وجہ نہیں بتائی لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے پیچھے طالبان ہیں جنہوں نے پندرہ جنوری سے بچیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔میری بعض دوستوں نے بتایا کہ ان کے والدین دوسرے علاقوں یا شہروں میں جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں تاکہ وہ بچیاں وہاں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔چونکہ آج اسکول کا آخری دن تھا اس لئے ہم سب کافی دیر تک کھیلتے رہے۔گھر جاتے ہوئے میں نے اسکول کی دیواروں کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ شاید اب میں دوبارہ یہاں نہیں آسکوں گی۔میں نے آج اسکول میں سہیلیوں کو اپنے بونیر کے دورے کی کہانی سنائی تو انہوں نے کہا کہ وہ یہ داستان سن سن کر اکتا چکی ہیں۔اسکول میں بچے اس افواہ پر بھی بات کررہے تھے کہ ایف ایم پر تقریر کرنے والے مولانا فوت ہوچکے ہیں ہم سب کی دعا تھی کہ وہ واقعی مر چکے ہوں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ لڑکیوں کو اسکول نہیں جانا چاہئے۔بعض نے کہا کہ مولانا چھٹیوں پر چلے گئے ہیں کیونکہ وہ ہر رات کو پابندی سے ایف ایم ریڈیو پر تقریر کرتے تھے اور انہوں نے گزشتہ رات تقریر نہیں کی تھی۔آج جمعہ تھا اور ٹیوشن کا نہیں پڑھنا تھا اس لئے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس میں لاہور بم دھماکے کی خبر نشر ہورہی تھی۔میں نے خود سے سوال کیا کہ آخر پاکستان میں ہی یہ بم دھماکے کیوں ہورہے ہیں۔
سات جنوری ، نہ خوف نہ فائرنگ
میں محرم کی چھٹیوں پر بونیر آگئی ہوں جو مجھے بلند پہاڑ اور سرسبز کھیتوں کی وجہ سے بہت اچھا لگتا ہے۔خوبصورت تو میرا سوات بھی ہے لیکن وہاں امن نہیں ہے۔ لیکن بونیر میں امن اور سکون ہے۔ نہ فائرنگ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خوف۔آج ہم پیر بابا کے مزار پر بھی گئے جہاں سے میری والدہ نے چوڑیاں اور جھمکے خریدے۔
پیر پانچ جنوری : رنگین کپڑ ے مت پہنو
میں اسکول روانہ ہونے کیلئے یونیفارم پہن ہی رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پرنسپل نے ہمیں یونیفارم پہننے سے منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر کے سادہ کپڑوں میں اسکول آیا جائے اور برقعہ پہن کر۔ مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون کی یاد آتی ھے
شام کو امی،
میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے
کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا
نہیں جاسکتا۔سوات میں آجکل ایک بات مشہور ہوگئی ہے کہ ایک دن ایک عورت شٹل
کاک برقعہ پہن کر کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں گر پڑی۔ ایک شخص نے آگے بڑھ
کر جب اسے اٹھانا چاہا تو عورت نے منع کرتے ہوئے کہا ’رہنے دو بھائی مت
اٹھاؤ تاکہ مولانا فضل اللہ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے‘۔ہم جب مارکیٹ میں اس
دکان میں داخل ہوئے جس سے ہم اکثر شاپنگ کرتے ہیں تو دکاندار نے ہنستے ہوئے
کہا کہ میں تو ڈر گیا کہ کہیں تم لوگ خود کش حملہ تو کرنے نہیں آئے ہو۔وہ
ایسا اس لیے کہہ رہے تھے کہ اس پہلے ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہے کہ خود
کش حملہ آور نے برقعہ پہن کر حملہ کیا ہے۔میں نے اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا
لباس پہننے کے لئے نکالا۔ دیگر لڑکیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آتی تھی
اور اسکول گھر کے ماحول جیسا لگتا تھا۔اسکول میں میری ایک سہیلی نے پاس
آکر کہا کہ برائے خدا ایمانداری سے بتاو کہ کیا طالبان ہمارے اسکول پر
حملہ کرنے جارہے ہیں۔صبح کی اسمبلی میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ رنگین لباس
پہن کر اسکول نہ آئیں کیونکہ طالبان اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔میں اسکول سے
واپس آگئی اور شام کو ٹی وی پر دیکھا تو خبر آرہی تھی کہ پندرہ دن کے
بعد شکر درہ سے کرفیو اٹھالیا گیا ہے ۔ یہ خبر سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ
ہماری انگریزی کی استانی وہاں رہتی تھی جو کرفیو کی وجہ سے نہیں آسکتی
تھیں۔ امید ہے کہ اب وہ بھی اسکول آنے لگیں گی۔
بشکریہ: بی بی سی
بشکریہ: بی بی سی