دنیا بھر میں پاکستان کے دینی مدارس کی اہمیت
تحریر : مسز سونیا بلال، میونخ، جرمنی.
لاک ڈاون سے چند ہفتے پہلے کی بات ہے ، پاکستان میں مدارس میں ختم بخاری شریف اور تقسیم اسناد کے پروگرام ہو رہے تھے، ہماری جرمن آپا کے چار بچے پاکستان میں دین کے علم کے حصول کے لئے موجود ہیں، جن میں سے ایک بیٹے غالبا مفتی بن چکے ہیں اور ایک عالم کورس مکمل کر چکے ہیں، تیسرے نمبر پر بیٹی یے جس نے اپنا عالمہ کورس مکمل کیا اور اس کی تقریب میں شرکت کے لئے یہاں سے والدین اور شادی شدہ بہنیں تک اپنے بچوں سمیت شریک ہوئیں
عجیب لگتا ہے نا ۔۔۔
ایک جرمن عورت ، کنورٹڈ مسلمان
اس نے اپنے بچوں کو خود سے دور بھیجا کہ دین کا علم حاصل کریں اور جب وہ جرمن بچے پاکستان جاتے تو شروع کا کتنا عرصہ انھیں عربی اور اردو سیکھنے میں لگ جاتا
یہاں کے اکثر لوگ انگلینڈ کے مدارس میں بچوں کو بھیجتے ہیں کیونکہ وہ قریب ہیں
لیکن ان کے بچوں نے خود پاکستان جانے کی خواہش کی کہ پاکستان جیسا علم کہیں نہیں ۔۔۔
یاد رہے کہ باقی تمام یورپ میں کوئی دینی مدرسہ نہیں ہے
پچھلے برس ہم جماعت کے ساتھ سوئیٹزرلینڈ گئے (عورت صرف اپنے محرم مرد کے ساتھ جا سکتی ہے، پردے کا مکمل انتظام ہوتا ہے بلکہ عام حالات سے بھی بڑھ کر )
وہاں پر آیک گھر میں ایک کنورٹڈ مسلم سوئس لڑکی ہمیں ملنے آئی ، اس نے بتایا کہ مسلمان ہونے کے بعد شادی اور بچوں کی پیدائش کی وجہ سے مجھے دین سیکھنے کا موقع نہ ملا، چھ سال ہو گئے ، صرف نماز آتی ہے اور میں اور بڑی بیٹی ویک اینڈ پر قریبی مسجد قرآن پڑھنے جاتے ہیں ، آپ لوگ کتنے لکی ہیں ۔ پاکستان سے ہیں ۔ دین سیکھنا کتنا آسان یے آپ لوگوں کے لئے ۔۔۔
اپنی تکلیفوں کا بتاتی رہی اور میں اسے شعب ابی طالب کے واقعات سنا کر ہمت بڑھاتی رہی ، مجھے کہنے لگی اب میں آن لائن سیکھنے کا سوچ رہی ہوں
واپسی پر میں نے پاکستان میں اپنی ٹیچر کو جب یہ واقعہ سنایا تو انھوں نے کہا بیٹا اب جو بھی کہے کہ آن لائن دین سیکھنے لگی ہوں ، ان سے کہو جتنا آتا یے بس اس پر عمل کرو اور آسانی کی دعا کرو , جب سیکھنے کا موقع ملے ، براہ راست سیکھو ،ان لائن قادیانی جو کچھ کر رہے ہیں، آپ کی سوچ ہے
وہ غیر مسلم بیچارے اسلام سمجھ کر سیکھتے ہیں اور کھائی سے نکل کر گڑھے میں جا گرتے ہیں ، یورپ خصوصا جرمنی تو اس قادیانی لابی کا گڑھ یے
مشورے میں کتنی خیر ہوتی یے ، اس دن جانا ۔۔۔۔
خیر بات کی طرف واپس آتے ہیں ، پھر ہم ایک دوسرے گھر گئے ، وہ ترکی نژاد سوئس لڑکی تھی
اس کے گھر ہماری ملاقات کو دونوں وقت 30 سے 35 خواتین آتیں ، سب کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ، گھر والی لڑکی سمیت چند اور تھیں جو پیدائشی مسلمان تھیں لیکن دین سے بہت دور اور اب تبلیغ کی محنت کی برکت سے دین پر پلٹیں اور زیادہ خواتین تو کنورٹڈ مسلمان تھیں
وہ سوئس لڑکیاں جب عبایا اور نقاب پہنے ہم سے ملنے آتیں تو بہت اچھا لگتا ، اور میرا جب انھیں پتہ چلتا کہ میں پاکستان سے ہوں تو کیا بتاوں کہ کتنی عزت ملتی جیسے میں دنیا کی سب سے بہترین جگہ سے آئی ہوں ، پاکستان اور انڈیا کو یہ لوگ دین کی نسبت سے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ان میں سے جس کے شوپر کا دین کا سفر پاکستان یا انڈیا کا ہوتا ، وہ بڑے فخر سے بتاتیں
اور یہ بھی بتاتیں کہ وہاں سے ان کے ہزبنڈ کیا کچھ سیکھ کر آئے
ان کا بھی یہی کہنا تھا آپ بہت لکی ہیں، آب نے پاکستان سے دین سیکھا ، آپ مدرسے گئیں؟ وہاں سب لوگ دین سیکھتے ہوں گے ؟
اور میں دل میں حساب لگانے لگی خوااتین کا مدرسہ میرے گھر سے 10 منٹ کی ڈرائیو پر تھا
صدائیں لگا کرتیں کہ شارٹ کورس کر لیں، 3 ماہ کا ، دین کے بنیادی مسائل سیکھ لیں ، نماز ، پاکی و دیگر ۔۔۔
40 روزہ کورس بھی ہوتا
ایک سال کا بھی ۔۔۔
لیکن ہمارے پورے ٹاون میں گنتی کی چند خواتین کے سوا کوئی نہ جاتا
کیونکہ دین سیکھنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ۔۔۔۔
اس سے ہمیں کوئی ظاہری فائدہ ملتا نظر نہیں آتا
اور ہم تو ظاہر کی طرف متوجہ ہونے والے ہیں
کئی بار سستی کی وجہ سے اور کئی بار صرف اس لئے کہ سیکھا تو عمل کرنا پڑ جائے گا
اور یہاں کے لوگ ۔۔۔۔۔ ترسے ہوئے ہیں 😔
اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں
میں نے ان کا مان نہ توڑا کہ جس دین کی طلب میں آپ لوگ بے چین ہیں، اس کو سیکھنے کا تو ہمارے یہاں شوق ہی باقی نہ رہا
ان سب سے مل کر خوشی بھی ہوئی کہ ہمارے دہنی ادارے قابل قدر ہیں، ہم پاکستانی دنیا میں اچھی پہچان بھی رکھتے ہیں ، الحمدللہ
ایک عرب لڑکی تھی، اس کے ہزبنڈ عالم تھے اور اکثر سفر میں رہتے، جب گھر ہوتے تو ان سب کو گروپز کی صورت تھوڑا بہت سکھاتے رہتے
وہ عرب لڑکی مفتی تقی عثمانی صاحب کا ذکر کر کے کہنے لگی ، آپ لوگوں کے پاس کتنے گریٹ سکالر ہیں میرے ہزبنڈ نے بتایا کہ سعودیہ ان سے اتنا متاثر ہے ان کو نیشنیلٹی دینے کی آفر کی جو انھوں نے قبول نہ کی تو تمام عرصہ جو وہاں گزرا ، عجیب سی خود اعتمادی کا احساس ہوا کہ پاکستان کا ایک نام ہے ، ہمارے علمائے کرام کا پوری دنیا میں ایک احترام ہے ، عرب جو علم دین کا گڑھ ہے وہاں بھی برصغیر کے علمائے کرام کی ایک خاص قدر و منزلت ہے الحمدللہ
ہم ہی اس علم اور علم والوں کی قدر نہ کر پائے شائد ۔۔۔
اس ترکی لڑکی نے جس کے گھر میں ہی رہے ، ایک چھوٹا سا کمرہ نماز کے لئے مختص کیا تھا جسے مصلی کہا جاتا ہے ، وہاں نفیس عبایا اور سکارف، خوبصورت جائے نماز طریقے سے ریک میں رکھے ہوئے تھے، تسبیحات، دینی کتب، ایک عجیب سی روحانیت تھی وہاں ۔۔۔ بہت اچھا لگا،
اللہ کرے ہہ علاقے اسلام کے نور سے منور ہو جائیں اور یہاں دینی تعلیم کے مراکز قائم ہوں اور ہمارے اپنے لوگوں میں بھی دین کو سیکھنے کا ان گوروں جیسا جذبہ پیدا ہو جائے ، آمین