Home » » یاجوج ماجوج اور دابة الارض کی حقیقت

یاجوج ماجوج اور دابة الارض کی حقیقت


یاجوج ماجوج اور دابة الارض کی حقیقت
س… آپ نے اپنے صفحہ “اقرأ” میں ایک حدیث شائع کی تھی اور اس میں قیامت کی نشانیاں بتائی گئی تھیں جن میں دجال کا آنا، دابة الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا وغیرہ شامل ہیں۔ برائے مہربانی یہ بتائیں کہ یاجوج ماجوج، دابة الارض سے کیا مراد ہے؟ اور آیا کہ یہ نشانی پوری ہوگئی؟
ج… دجال کے بارے میں ایک دوسرے سوال کے جواب میں لکھ چکا ہوں، اس کو ملاحظہ فرمالیا جائے۔
یاجوج ماجوج کے خروج کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے، ایک سورہٴ انبیاء کی آیت:۹۶ میں جس میں فرمایا گیا ہے:
“یہاں تک کہ جب کھول دئیے جائیں گے یاجوج ماجوج اور وہ ہر اونچان سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور قریب آن لگا سچا وعدہ (یعنی وعدہٴ قیامت) پس اچانک پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں منکروں کی ہائے افسوس! ہم تو اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔”
اور دوسرے سورہٴ کہف کے آخری سے پہلے رکوع میں جہاں ذو القرنین کی خدمت میں یاجوج ماجوج کے فتنہ و فساد برپا کرنے اور ان کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کا ذکر آتا ہے، وہاں فرمایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے دیوار کی تعمیر کے بعد فرمایا:
“یہ میرے رب کی رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ (وعدہٴ قیامت) آئے گا تو اس کو چور چور کردے گا، اور میرے رب کا وعدہ سچ ہے۔ (آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) اور ہم اس دن ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ ان میں سے بعض بعض میں ٹھاٹھیں مارتے ہوں گے۔”
ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہے کہ یاجوج ماجوج کا آخری زمانے میں نکلنا علمِ الٰہی میں طے شدہ ہے اور یہ کہ ان کا خروج قیامت کی نشانی کے طور پر قربِ قیامت میں ہوگا۔ اسی بنا پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے خروج کو قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں شمار کیا گیا ہے، اور بہت سی احادیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کا خروج سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ احادیث طیبہ کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے۔
ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دجال کو قتل کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہے:
“پھر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس جائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے فتنے سے محفوظ رکھا ہوگا اور گرد و غبار سے ان کے چہرے صاف کریں گے اور جنت میں ان کے جو درجات ہیں وہ ان کو بتائیں گے۔ ابھی وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو خروج کی اجازت دی ہے جن کے مقابلے کی کسی کو طاقت نہیں، پس آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیے۔
اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی سے پھسلتے ہوئے اتریں گے، پس ان کے دستے بحیرہ طبریہ پر گزریں گے تو اس کا سارا پانی صاف کردیں گے اور ان کے پچھلے لوگ آئیں گے تو کہیں گے کہ کسی زمانے میں اس میں پانی ہوتا تھا۔ اور وہ چلیں گے یہاں تک کہ جب جبل خمر تک جو بیت المقدس کا پہاڑ ہے پہنچیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو ہم قتل کرچکے اب آسمان والوں کو قتل کریں۔ پس وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے تیر خون سے رنگے ہوئے واپس لوٹادے گا۔
اور اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور پر محصور ہوں گے اور اس محاصرہ کی وجہ سے ان کو ایسی تنگی پیش آئے گی کہ ان کے لئے گائے کا سر تمہارے آج کے سو درہم سے بہتر ہوگا۔ پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں کیڑا پیدا کردے گا، جس سے وہ ایک آن میں ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور سے زمین پر اتریں گے تو ایک بالشت زمین بھی خالی نہیں ملے گی جو ان کی لاشوں اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو، پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ سے دعا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل پرندے بھیجے گا، جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر جہاں اللہ کو منظور ہوگا پھینک دیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ اس سے کوئی خیمہ اور کوئی مکان چھپا نہیں رہے گا، پس وہ بارش زمین کو دھوکر شیشے کی طرح صاف کردے گی (آگے مزید قربِ قیامت کے حالات مذکور ہیں)۔”
(صحیح مسلم، مسند احمد، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، کنز العمال)
۲:…ترمذی کی حدیث میں ہے کہ وہ پرندے یاجوج ماجوج کی لاشوں کو نہبل میں لے جاکر پھینکیں گے اور مسلمان ان کے تیر کمان اور ترکشوں کو سات برس بطور ایندھن استعمال کریں گے۔ (مشکوٰة ص:۴۷۴)
۳:…ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ آیا، تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ: مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوا، انہوں نے فرمایا: قیامت کے وقوع کا وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ میرے رب عزوجل کا مجھ سے ایک وعدہ ہے اور وہ یہ کہ دجالِ اکبر خروج کرے گا تو اس کو قتل کرنے کے لئے میں اتروں گا، وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ کی طرح پگھلنا شروع ہوگا، پس اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے ہلاک کردیں گے۔ یہاں تک کہ شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ: اے موٴمن! میرے پیچھے کافر چھپا ہوا ہے اسے قتل کر! پس میں دجال کو قتل کردوں گا اور دجال کی فوج کو اللہ تعالیٰ ہلاک کردے گا۔
پھر لوگ اپنے علاقوں اور وطنوں کو لوٹ جائیں گے۔ تب یاجوج ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑے ہوئے آئیں گے، وہ مسلمانوں کے علاقوں کو روند ڈالیں گے، جس چیز پر سے گزریں گے اسے تباہ کردیں گے، جس پانی پر سے گزریں گے اسے صاف کردیں گے، لوگ مجھ سے ان کے فتنہ و فساد کی شکایت کریں گے، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا، پس اللہ تعالیٰ انہیں موت سے ہلاک کردے گا، یہاں تک کہ ان کی بدبو سے زمین میں تعفن پھیل جائے گا، پس اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جو ان کو بہاکر سمندر میں ڈال دے گی۔
بس میرے رَبّ عزوجل کا مجھ سے جو وعدہ ہے اس میں فرمایا کہ جب یہ واقعات ہوں گے تو قیامت کی مثال اس پورے دنوں کی حاملہ کی ہوگی جس کے بارے میں اس کے مالکوں کو کچھ خبر نہیں ہوگی کہ رات یا دن کب، اچانک اس کے وضع حمل کا وقت آجائے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ابن جریر، مستدرک حاکم، فتح الباری، درمنثور، التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص:۱۵۸، ۱۵۹)
یاجوج ماجوج کے بارے میں اور بھی متعدد احادیث ہیں جن میں کم و بیش یہی تفصیلات ارشاد فرمائی گئی ہیں، مگر میں انہی تین احادیث پر اکتفا کرتے ہوئے یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آیا یہ نشانی پوری ہوچکی ہے یا ابھی اس کا پورا ہونا باقی ہے؟ فرمائیے! آپ کی عقل خداداد کیا فیصلہ کرتی ہے؟
رہا دابة الارض! تو اس کا ذکر قرآن کریم کی سورة النمل آیت:۸۲ میں آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
“اور جب آن پڑے گی ان پر بات (یعنی وعدہٴ قیامت کے پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا) تو ہم نکالیں گے ان کے لئے ایک چوپایہ زمین سے جو ان سے باتیں کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں لاتے تھے۔”
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دابة الارض کا خروج بھی قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ہے اور ارشاداتِ نبویہ میں بھی اس کو علاماتِ کبریٰ میں شامل کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرو، دخان، دجال، دابة الارض، مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونا، عام فتنہ اور ہر شخص سے متعلق خاص فتنہ۔ (مشکوٰة ص:۴۷۲)
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کی پہلی علامت جو لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگی، وہ آفتاب کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے دابة الارض کا نکلنا ہے، ان میں سے جو پہلے ہو دوسری اس کے بعد متصل ہوگی۔ (مشکوٰة، صحیح مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے کہ تین چیزیں جب ظہور پذیر ہوجائیں گی تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا اس نے ایمان کی حالت میں کوئی نیکی نہ کی ہو، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا ظاہر ہونا اور دابة الارض کا نکلنا۔ (مشکوٰة، صحیح مسلم)
ایسا لگتا ہے کہ اس دنیا کے لئے آفتاب کے طلوع و غروب کا نظام ایسا ہے جیسے انسان کی نبض کی رفتار ہے۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس کی نبض باقاعدہ چلتی رہتی ہے، لیکن نزع کے وقت پہلے نبض میں بے قاعدگی آجاتی ہے اور کچھ دیر بعد وہ بالکل ٹھہر جاتی ہے، اسی طرح جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے سورج کے طلوع و غروب کے نظام میں کبھی خلل نہیں آیا، لیکن قیامت سے کچھ دیر پہلے اس عالم پر نزع کی کیفیت طاری ہوجائے گی اور اس کی نبض بے قاعدہ ہوجائے گی، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آفتاب کو ہر دن مشرق سے طلوع ہونے کا اذن ملتا ہے، ایک دن اسے مشرق کے بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کا حکم ہوگا۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
پس جس طرح نزع کی حالت میں ایمان قبول نہیں ہوتا، اسی طرح آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد (جو اس عالم کی نزع کا وقت ہوگا) توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا، نہ ایسے ایمان کا اعتبار ہوگا، اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کے بعد بے ایمانوں کو رسوا کرنے اور ان کے غلط دعویٴ ایمان کا راستہ بند کرنے کے لئے موٴمن و کافر پر الگ الگ نشان لگادیا جائے گا۔
“دابة الارض جب نکلے گا تو اس کے پاس موسیٰ علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی انگشتری ہوگی، وہ انگشتری سے موٴمن کے چہرے پرمہر لگادے گا جس سے اس کا چہرہ چمک اٹھے گا، اور کافر کی ناک پر موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے مہر لگادے گا۔ (جس کی وجہ سے دل کے کفر کی سیاہی اس کے منہ پر چھاجائے گی) جس سے موٴمن و کافر کے درمیان ایسا امتیاز ہوجائے گا کہ مجلس میں موٴمن و کافر الگ الگ پہچانے جائیں گے۔”
دابة الارض کے تھوڑے عرصہ بعد ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان کا انتقال ہوجائے گا اور صرف شریر لوگ رہ جائیں گے، چوپاوٴں کی طرح سڑکوں پر شہوت رانی کریں گے، ان پر قیامت واقع ہوگی۔” (مشکوٰة)
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel