ارتغل ڈرامے کی بارے میں دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ارطغرل غازی یا Ertugrul Dirillis ایک ترکی تاریخی ڈرامہ ہے، جس میں خلافتِ عثمانیہ کے بانی عثمان کے والد ارطغرل اور ان کے قبیلہ کے حالات کو فلم بند کیا گیا ہے، لیکن اس کے تمام واقعات مستند اور تصدیق شدہ نہیں ہیں، بلکہ اس داستان میں سچ اور جھوٹ دونوں کی آمیزش ہے۔
معتبر ذرائع سے ملی اطلاع اور آپ کے سوال سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کے کردار و مناظر بڑے سحر انگیز ہیں، جس کی وجہ سے عوام و خواص بلکہ دیندار افراد تک اس پر فریفتہ ہیں اور اس کے دیوانے بنے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ بعض نام نہاد علماء اور خود ساختہ مفکرین بڑے بڑے مضامین لکھ کر اس کو دیکھنے کی دعوت دے رہیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے ڈراموں کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے، اور لوگوں کی صحیح رہنمائی کی جائے۔
مذکورہ ڈرامہ اور اس قسم کے دیگر ڈراموں کی فلم بندی کرنے اور اس کو دیکھنے میں شرعاً متعدد قباحتیں موجود ہیں۔
سب سے پہلی قباحت یہ ہے کہ اس میں جان بوجھ کر جھوٹ شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ جھوٹ کی آمیزش کے بغیر ایسے ڈرامے مکمل ہی نہیں ہوسکتے، اور ان میں دلچسپی بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔ جبکہ جھوٹ کی اسلام میں کیا حیثیت ہے وہ اظہر من الشمس ہے کہ وہ ایک گناہِ کبیرہ ہے۔
دوسری یہ ہے کہ ڈرامہ کی عکس بندی کرنا کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں ہے جس کے لیے تصویر کشی کی اجازت ہو۔ لہٰذا بلاضرورتِ شدیدہ ڈیجیٹل تصویر کشی بھی متعدد علماء کرام کی تحقیق کے مطابق جائز نہیں ہے۔
تیسری یہ کہ اس میں عورتوں کے کردار کی وجہ سے مرد و زن کا اختلاط بھی ہے، جبکہ نامحرم عورتوں کو قصداً دیکھنا ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے اسے آنکھ کے زنا سے تعبیر کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھیں (زنا کرتی ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے۔ (مسنداحمد)
ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ہدایت فرمائی کہ اے علی ! نگاہ کے بعد نگاہ نہ ڈالو کہ نگاہ اول (بلا ارادہ کے اچانک نظر) قابلِ عفو ہے، دوسری نظر (جو قصداً ہو) معاف نہیں۔ (ابوداؤد) نیز اس ڈرامے میں محبت کی داستان بھی شامل کی گئی ہے، چنانچہ عشق و معاشقہ کے مواد ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کے اخلاق متأثر ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
چوتھی اس ڈرامہ میں بیک گراؤنڈ میوزک بھی ہے، اور موسیقی کے بارے میں آپ علیہ السلام کا واضح فرمان ہے کہ موسیقی دلوں میں نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی کھیتی کو پیدا کرتا ہے۔
پانچویں قباحت یہ ہے کہ اس قسم کے ڈراموں کو تبلیغِ دین، اصلاح اور بیداری کا نام دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پردہ اسکرین پر جو کچھ لوگوں کو دکھایا جاتا ہے اس کا اصلاحی اثر وقتی ہوتا ہے، اور ان ڈراموں اور داستانوں سے پیدا ہونے والے جذبات کی عمر پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں کتابی اثر دیر پا ہوتا ہے اور تاریخ کی معتبر کتابیں ہی حقیقی اثر پیدا کرسکتی ہیں، تاریخ کا شوق رکھنے والوں کے لئے مستند تاریخی کُتب ہی قلب کی تسکین کا باعث ہوسکتی ہیں، افسانے اور ڈرامے نہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی میں متعدد اسلامی ممالک اور امریکہ میں بھی اس قسم کی نام نہاد اصلاحی و تبلیغی کوششیں کی گئیں، اور انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی زندگیوں پر کئی فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے، جن میں دس پیغام، الرسالہ، وغیرہ فلمیں قابلِ ذکر ہیں، لیکن یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ ایسی فلمیں غیرمسلموں بلکہ مسلمانوں پر بھی کوئی مثبت و دیرپا اثرات ڈالنے میں ناکام رہیں، بالفرض اگر ان فلموں کا کچھ اثر ہورہا ہوتو تب بھی معصیت کے اس مجموعہ کی گنجائش بالکل نہیں ہوسکتی۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس طرح کی فلموں میں جو کردار اسکرین پر دکھائے جائیں گے ناظرین کے ذہنوں میں اس شخصیت کی وہی تصویر بن جاتی ہے، پھر جب بھی اس شخصیت کا ذکر نکلے گا، ناظرین کے ذہنوں میں اسی اداکار کی تصویر سامنے آئے گی۔ مثلاً کسی ڈرامہ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا کردار بتایا گیا، اس کردار کو ادا کرنے والے کی شکل ناظرین کے ذہنوں میں بیٹھ جائے گی، پھر جب بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوگا، اسی اداکار کی شکل ذہن میں آجائے گی، جبکہ ہوسکتا ہے وہ اداکار مسلمان ہی نہ ہو، یا مسلمان تو ہو لیکن فاسق و فاجر ہو، اداکار خواہ کچھ بھی ہو، لیکن صحابہ کرام کے مرتبہ کا تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اسلام کی ایسی عظیم اور مقدس ہستیوں کے ذکر کے وقت اداکاروں کی شکل و صورت ذہن میں آنا بذاتِ خود ایک بڑی قباحت ہے۔
لہٰذا اتنی ساری قباحتیں جس چیز میں موجود ہوں وہ بلاشبہ ناجائز عمل ٹھہرے گا، ترکی صدر کا اس کی حمایت کرنا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ ایسے ڈراموں کا بنانا، اس کا دیکھنا اور اس کے دیکھنے کی ترغیب دینا شرعاً ناجائز ہے، نیز اس پر مال لگانا بھی تعاون علی المعصیت اور سخت گناہ کی بات ہے، مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
وفي الحدیث : والعینان تزنیان وزناہما النظر۔ (مسند أحمد بن حنبل ۲؍۳۴۲)
استماع الملاھی و الجلوس علیہا وضرب المزامیر والرقص کلہا حرام‘‘ ومستحلہا کافر وفی الحمادیۃ من النافع اعلم ان التغنی حرام فی جمیع الادیان۔ (جامع الفتاوی، ۱/ ۷۳ ط کتب خانہ رحیمیہ دیوبند)